![]() |
لاطینی امریکی ممالک سے تعلق رکھنے والے منشیات کے اسمگلروں کے انتہائی منظم گروہ شاید جنوبی ایشیا کو اپنا مال دیگر ممالک پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں |
بنگلہ دیشی پولیس نے گزشتہ ماہ ایشیا میں مائع کوکین کی سب سے بڑی معلوم کھیپ پکڑی تھی، جسے بھارت اسمگل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ منشیات کے عالمی اسمگلر جنوبی ایشیا میں زیادہ فعال ہو چکے ہیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ چودہ ملین ڈالر مالیت کی اس مائع کوکین کی آخری منزل بھارت ہی تھی یا بعد ازاں اسے یورپ اور دیگر ایشیائی ممالک کو اسمگل کرنا مقصود تھا۔ بنگلہ دیشی پولیس اہلکار محمد کاظم الدین نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’وہ (اسمگلر) اس کوکین کو بھارت پہنچانا چاہتے تھے۔ تاہم چٹاگانگ میں پولیس نے اس کھیپ کو پکڑ لیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ٹھوس ثبوت ملے ہیں کہ اسمگلروں کی کوشش تھی کہ یہ کوکین بھارت کی کسی بھی بندرگاہ تک پہنچا دی جائے۔
یہ بات واضح ہے کہ منشیات کے اسمگلروں کے گروہ ایشیا میں کچھ زیادہ ہی فعال ہو چکے ہیں۔ بھارتی اور غیر ملکی پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران جنوبی امریکا اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کوکین اسمگل کرنے کی کوشش میں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق حالیہ عرصے میں کوکین کی اسمگلنگ کی کوشش میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو میں بھی کئی کلو گرام منشیات پکڑی گئی تھیں۔
ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ لاطینی امریکی ممالک سے تعلق رکھنے والے منشیات کے اسمگلروں کے انتہائی منظم گروہ شاید جنوبی ایشیا کو اپنا مال دیگر ممالک پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس خطے کے ممالک میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کا فقدان ہے۔ کچھ ذرائع کے مطابق اسمگلر ایشیا کو ایک بڑی منڈی بھی تصور کرتے ہیں اور وہ حالیہ عرصے کے دوران اپنا دائرہٴ کار آسٹریلیا، ہانگ کانگ اور فلپائن تک بڑھا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کا بھی کہنا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں چیک ہوئے بغیر کوکین دوسرے ممالک کو منتقل کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ڈرگ اینڈ کرائم یونٹ UNODC سے وابستہ کرسٹینا البرٹائن نے بنگلہ دیش میں پکڑی جانے والی کوکین پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک بڑا انتباہ ہے۔
انسداد منشیات کے لیے کام کرنے والی زیادہ تر علاقائی ایجنسیوں کی توجہ ابھی تک ہیروئن اور دیگر منشیات کی اسمگلنگ پر مرکوز تھی۔ اس ضمن میں افغانستان ان کی فہرست پر تھا، جہاں دنیا بھر کی افیون میں سے نوّے فیصد کی کاشت ہوتی ہے۔ اس تناظر میں ایشیا میں کوکین کی اسمگلنگ ایک انتہائی حیرت انگیز بات تصور کی جا رہی ہے۔
میکسیکو سے تعلق رکھنے والے UNODC کے ایک اعلیٰ اہلکار انٹونیو مازیٹیلی نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ لاطینی امریکا میں فعال منشیات کے اسمگلرز نئی مارکیٹس کی تلاش میں ہیں، ’’لاطینی امریکا میں فعال منظم اسمگلروں کے گروہ بالخصوص کوکین اور جسم و دماغ کو زیادہ فعال بنانے والی منشیات ’ میتھام فیٹامین‘ کی فروخت کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب ایشیا ان کی نئی منڈی بن چکی ہے۔
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں