انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ بظاہر لاپتہ ہونے والے درجنوں افراد کو مصر کی سکیورٹی فورسز نے خفیہ طور پر گرفتار کیا تھا۔
امریکہ میں موجود ایچ آر ڈبلیو نے بتایا ہے کہ کچھ کیسز میں ملکی حکام نے یا تو ان لاپتہ افراد کو اپنی تحویل میں لیے جانے کی تردید کی ہے یا پھر ان کے بارے میں بتانے سے انکار کیا ہے۔
ادارے نے مصری حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر لاپتہ افراد کے بارے میں بتائے اور انھیں گرفتار کرنے کے ذمہ داران کو پکڑے۔
خیال رہے کہ جبری طور پر کسی کو بھی غائب کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشرقِ وسطیٰ میں نائب ڈائریکٹر جوئی سٹروک کے مطابق صدر عبدالفاتح السیسی کے ماتحت ملک کی سکیورٹی فورسز بلا خوف و خطر کارروائیاں کر رہی ہیں۔
ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ مصر میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے جبکہ 40 ہزار سے زائد قید میں ہیں۔ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اخوان المسلمین کے حامی تھے یا پھر وہ سیکیولر اور لبرل کارکن تھے۔
ادارے کی جانب سے اپریل 2014 سے جون 2015 کے دوران جبری طور پر غائب کیے جانے والے پانچ افراد کی دستاویز تیار کی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ان پانچ میں سے تین رشتے دار تھے اور ان کے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے انھیں حراست میں لیا تھا۔تاہم گرفتار ہونے والے ایک ڈاکٹر کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
یونیورسٹی کے تین طالب علم جن کے نام ارسا ارطاویل، عمر علی اور شیعب سعد بتائے گئے ہیں کے اہلِ خانہ کے مطابق انھیں بظاہر یکم جون کو دریائے نیل کے قریب چہل قدمی کے دروان حراست میں لیا گیا تھا۔
تین اور ایسے افراد ہیں جو جبری طور پر لاپتہ ہونے کے بعد مردہ حالت میں ملے۔
ال سید الراسید جن کی عمر 46 برس بتائی گئی ہے کو چار جون کو صوبہ قلیوبیہ کے دارالحکومت بنھا سے گرفتار کیا گیا۔ ان کے بیٹے محمد کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو سادہ لباس میں موجود متعدد پولیس اہلکاروں اور وردی میں ملبوس سینٹرل سکیورٹی فورسز کے افسران اور سپاہیوں نے گرفتار کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ گرفتاری کے موقع پر سکیورٹی فورسز نے یہ نھیں بتایا تھا کہ ان کے والد کو کہاں لے جایا جا رہا ہے لیکن تین دن بعد انھیں میئر آفس سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انھیں اطلاع دی گئی کہ وہ ان کے والد کی لاش مردہ خانے میں موجود ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے کہا ہے کہ مصر میں موجود انسانی حقوق کے اداروں نے سنہ 2013 اور 2015 میں جبری طور لاپتہ ہونے والے بہت سے دیگر افراد کے بارے میں کوائف اکھٹے کیے ہیں۔
رواں سال جون میں فریڈم فور دی بریو نامی ایک غیر سرکاری گروہ نے اپریل 2015 کے بعد سے گرفتار ہونے والوں کی مدد کے لیے 164 کیسز کو تحریری طور پر اکھٹا کیا۔
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ان 164 افراد میں سے 66 ایسے ہیں جن کے بارے میں اب تک کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ انھیں کہاں رکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد میں سے 64 کے بارے میں 24 گھنٹوں کے بعد بتا دیا گیا تھا کہ انھیں کہاں رکھا گیا ہے۔ مصری قانون کے مطابق 24 گھنٹے وہ زیادہ سے زیادہ وقت ہے جس میں بغیر کسی الزام کے کسی شخص کو زیرِ حراست رکھا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب مصر کی وزارتِ داخلہ نے ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم وہ اس سے پہلے ہی جبری طور پر لوگوں کو گرفتار کیے جانے کے اقدامات کو مسترد کر چکی ہے۔
ایک نامعلوم پولیس افسر نے گذشتہ ماہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم یہ طریقے استعمال نہیں کرتے، اگر کسی کے پاس ثبوت ہے تو انھیں باضابطہ طور پر شکایت درج کروانی چاہیے۔‘

تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں