امریکی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اب تک جولائی زمین کا گرم ترین مہینہ رہا ہے۔
ریکارڈ کے مطابق اس ماہ اوسط درجہ حرارت 16 اعشاریہ چھ ڈگری سینٹی گریڈ رہا جو کہ جولائی سنہ 1998 سے اعشاریہ صفر آٹھ ڈگری زیادہ ہے۔
موسم اور سمندر کی تبدیلیوں کا جائزہ لینے والے امریکی ادارے نوآ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود ریکارڈ کی وجہ سے یہ توقع کر رہے تھے کہ رواں سال گرم ترین سال ہوگا۔رپورٹ کے مطابق گرم ترین مہینوں کا ریکارڈ اکھٹا کرنے کا سلسلہ 1880 میں شروع ہوا تھا اور 2005 تک 10 میں سے نو گرم ترین مہینے جولائی کے ہی ریکارڈ ہوئے۔
سائینس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں اور موسم میں ایل نینو کا عمل یعنی بحرالکاہل کے استوائی حصے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
نوآ میں موجود ماہرِ طبیعات جیک کراؤچ کا کہنا ہے کہ ’دنیا گرم ہورہی ہے، یہ مسلسل گرم ہورہی ہے، اور یہ ہمارے پاس موجود ڈیٹا میں بار بار دیکھا جا رہا ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ہم قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ریکارڈ کے مطابق 2015 گرم ترین سال ہے۔
جیک کراؤچ سمجھتے ہیں کہ اب وقت ہے کہ دیکھا جائے کہ اس کا کیا اثر ہوگا۔
بی بی سی کے نامہ نگار میٹ میگراتھ کہتے ہیں کہ جولائی شدید گرم مہینہ تھا اور عمومی طور پر یہ پوری دنیا میں گرم ترین مہینہ ہوتا ہے۔
برطانیہ میں محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ یکم جولائی گرم ترین دن تھا جب لندن کے نواح میں درجہ حرارت 36 اعشاریہ سات ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔
اسی طرح سپین سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں گرمی کی شدید لہریں ریکارڈ کی گئیں جبکہ افریقی خطے میں جولائی دوسرا گرم ترین مہینہ رہا۔
ایل نینو کے علاوہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھنے سے بھی درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ہر چند سال بعد بحرالکاہل کے پانی کے گرم ہونے کو عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے منسلک کیا جاتا ہے۔
.سمندر بھی بہت سی گرمی کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں جو بحرالکاہل اور بحرہ ہند کو بڑے پیمانے پر گرمانے کا سبب بنتے ہیں۔
سائنس دانوں نے جب اس سال کے اب تک کے زمین اور سمندر کے درجہ حرارت کا جائزہ لیا تو دونوں کا اوسط درجہ حرارت اعشاریہ آٹھ پانچ تھا جو کہ 20ویں صدی کے اوسط درجہ حرارت سے زیادہ ہے۔
نوآ کی رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ہر صدی میں جولائی کے مہینے میں اوسط درجہ حرارت اعشاریہ چھ پانچ سینٹی گریڈ زیادہ ہوا۔
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں